تحفظ حقوق نسواں بل ۲۰۰۶ء ( قرآن وسنت کی روشنی میں تجزیہ )
Abstract
قیام پاکستان کے بعد سے ہی مسلم اقوام نے مطالبہ شروع کر دیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں کا یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اس مقصد کی کما حقہ تکمیل کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سمیت تحریک پاکستان کے تمام ذمہ دار را نماؤں نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن وسنت کی عملداری ہوگی اور اسے ایک آئیڈیل اسلامی ریاست بنایا جائے گا۔ مگر عوام کے پر زور مطالبات کی تکمیل نظر نہیں آ رہی تھی اسی اثنا میں عوامی تحریک نظام مصطفی اور دیگر اسلامی تحریکیں متحرک ہوئیں جن کی اقتداء میں پورا ملک اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آگیا ۔ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہوئے اور بہت سوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس تحریک کی عظیم قربانیاں اس وقت ثمر آور ثابت ہوئیں جب جنرل محمد ضیاء الحق ( مرحوم ) برسر اقتدار آئے اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی عوامی مطالبہ پر ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈینینس سمیت متعدد دیگر اسلامی قوانین کے نفاذ پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
						
							
