الاشباه والنظائر في القرآن الكريم ایک تنقیدی جائزہ
Abstract
قرآن حکیم میں کچھ ایسے الفاظ و محاورات استعمال ہوتے ہیں جو کثیر المعانی ہیں، جن کی معنوی جہات کو متعیین کرنے میں غیر اہل زبان ہی کو نہیں بلکہ خود اہل زبان کو بھی دشواری و صعوبت لاحق ہوتی ہے ۔ حتی که عبد نبوی ، عہد صحابہ اور عبد تا بعین و تبع تابعین میں بھی بعض قرآنی الفاظ و محاورات کے معانی و مطالب کی تعیین کے سلسلہ میں استفسارات و سوالات منقول ہوتے ہیں۔ ان وجوہ و عوامل کی بناء پر متقدمین و متاخرین مفسر بین ائمہ لغات نے قرآنی و محاورات کے ترجیحی معانی و مفاہیم کو طے کرنے کے لیے قرآنی لغات نویسی کی داغ بیل ڈالی اور اسے ایک فن کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اس فون پر گراں قدر کتب تصنیف کیں ۔ متقدمین علماء وائمہ لغات میں، جنہوں نے قرآنی لغات نویسی اور مشکلات قرآن کے حلال میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ، ایک نمایاں نام مقاتل بن سلیمان بن بشیر الا زدی الخراسانی الخی (م : ۱۵۰ ھ ) کا ہے ۔ اس فن ( الاشباہ والنظائر فی القرآن الکریم ) پر انہوں نے ایک کتاب الوجوه والنظائر کے نام سے تصنیف کی ، جبکہ ایک دوسری کتاب الاشباہ والنظائر في القرآن الكريم کے نام سے بھی ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ موخر الذکر تصنیف کو عبد الله محمود شحاتہ نے مرتب و مدون کر کے قاہرہ سے شائع کیا ہے (۱۹۷۵ء ) ۔ الاشباه والنظائر في القرآن الكريم مير میں قوامیس و معاجمہ کی ترتیب پر قرآنی الفاظ والغات کی شرح و تفسیر کی گئی ہے، ( جو تنزیل میں ایک سے زائد بار آئے ہیں اور نجوائے کلام کے لحاظ سے مختلف جگہوں پر مختلف معانی : یتے ہیں ) اور اصل لفظ کی معانیاتی تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہے، تاکہ قاری کو تنزیل میں ایک سے زائد بار واقع ہونے والے قرآنی الفاظ کے معانی و مفاہیم کے درمیان جو فرق ہے، اس کا علم ہو سکے (ملاحظہ ہو: - M. Plessner انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لائیڈن: اسی بے برل ، ۱۹۹۳ ، ۵۰۸۷-۵۰۹)۔
						
							
